ان
کے انتقال کا وقت قریب آ گیا لیکن جان نکلنے میں بہت تکلیف ہورہی تھی گھر
والوں نے کلمہ پڑھنے کی تلقین کی لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ اتنے پرہیز
گار اور متقی ہونے کے باوجود
بھی انکی زبان سے کلمہ جاری نہیں ہو رہا تھا ، گھر والے بھی پریشان ہو گئے
کہ نہ جانے ان سے ایسا کونسا گناہ ہو گیا کہ جان کنی کے وقت کلمہ نصیب
نہیں ہو رہا ، وہ کوئی عام انسان نہیں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
صحابہ میں شامل تھے انکا نام علقمہ تھا چنانچہ انکی بیوی نے نبی کریم صلی
اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں یہ اطلاع بھجوائی کہ باوجود تلقین کے انکی زبان پر کلمہ
جاری نہیں ہو رہا آپ نے فرمایا کہ علقمہ کے والدین زندہ ہیں یا نہیں ۔
بتایا گیا کہ صرف والدہ زندہ ہیں لیکن وہ کسی وجہ سے ناراض ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی والدہ کو پیغام بھجوایا کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں کیا میں آپ کے پاس آؤں یا آپ میرے پاس آ جائیں گی انکی والدہ نے کہا کہ اے اللہ کے نبی میں آپ کو تکلیف نہیں دے سکتی میں خود حاضر خدمت ہوتی ہوں چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کی خدمت میں حاضر ہو گئی آپ نے علقمہ کے متعلق پوچھا کہ وہ کیسا آدمی ہے ان کی والدہ نے بتایا کہ وہ بہت نیک ہے ۔ نماز روزہ کا پابند ہیں لیکن اپنی بیوی کے معاملے میری نافرمانی کرتا ہے اس لیے میں اس سے ناراض ہوں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علقمہ کا حال انکی والدہ کو بیان کیا کہ انکی زبان پر کلمہ جاری نہیں ہو رہا اور جان نہیں نکل رہی اس لیے آپ انہیں معاف کردیں لیکن انکی والدہ نے غصے کی وجہ سے انکار کر دیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہہ کو حکم دیا کہ لکڑیاں جمع کرو اور علقمہ کو جلا دو ۔ انکی والدہ یہ سن کر گھبرا گئی اور حیرت سے پوچھا کہ کیا میرے بیٹے کو آگے میں ڈالا جائے گا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ اللہ کے عذاب کے مقابلے میں ہمارا عذاب بہت ہلکا ہے ، خدا کے قسم جب تک تم اس سے ناراض ہو نہ تو اسکی کوئی نماز قبول ہے اور نہ صدقہ ۔
انکی والدہ نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں نے انہیں معاف کردیا اور انکی غلطیوں کو درگزر کر دیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ علقمہ کا حال دیکھو ، لوگوں نے بتایا کہ انکی زبان پر کلمہ بھی جاری ہوگیا ہے اور انکی جان بھی نہایت آسانی سے نکل گئی ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے غسل اور کفن کا حکم دیا اور خود انکے جنازے میں تشریف لے گئے ، دفن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا
جس شخص نے اپنی ماں کی نافرمانی کی یا اسے تکلیف پہنچائی تو اس پر اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت
اللہ اسکا کوئی نیک عمل قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے اور اپنی ماں کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرکے اسے راضی نہ کر لے یاد رکھو کہ اللہ کی رضامندی ماں باپ کی رضامندی میں ہے اور اللہ کا غصہ ماں باپ کے غصہ میں
اب اس واقعہ کو پڑھ کر ہم سوچیں کہ ایک صحابی رسول نے ماں کی ذرا سی نافرمانی کی تو انکے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ، جبکہ وہ بہت نیک اور پرہیز گار تھے ، اور ایک طرف ہم ہیں کہ ہمارے پلے کچھ بھی نہیں ہے اور ماں باپ کا دل دکھانے سے بھی باز نہیں آتے تو ہم کس طرح اپنی بخشش کی امید لگائے بیٹھے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی والدہ کو پیغام بھجوایا کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں کیا میں آپ کے پاس آؤں یا آپ میرے پاس آ جائیں گی انکی والدہ نے کہا کہ اے اللہ کے نبی میں آپ کو تکلیف نہیں دے سکتی میں خود حاضر خدمت ہوتی ہوں چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کی خدمت میں حاضر ہو گئی آپ نے علقمہ کے متعلق پوچھا کہ وہ کیسا آدمی ہے ان کی والدہ نے بتایا کہ وہ بہت نیک ہے ۔ نماز روزہ کا پابند ہیں لیکن اپنی بیوی کے معاملے میری نافرمانی کرتا ہے اس لیے میں اس سے ناراض ہوں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علقمہ کا حال انکی والدہ کو بیان کیا کہ انکی زبان پر کلمہ جاری نہیں ہو رہا اور جان نہیں نکل رہی اس لیے آپ انہیں معاف کردیں لیکن انکی والدہ نے غصے کی وجہ سے انکار کر دیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہہ کو حکم دیا کہ لکڑیاں جمع کرو اور علقمہ کو جلا دو ۔ انکی والدہ یہ سن کر گھبرا گئی اور حیرت سے پوچھا کہ کیا میرے بیٹے کو آگے میں ڈالا جائے گا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ اللہ کے عذاب کے مقابلے میں ہمارا عذاب بہت ہلکا ہے ، خدا کے قسم جب تک تم اس سے ناراض ہو نہ تو اسکی کوئی نماز قبول ہے اور نہ صدقہ ۔
انکی والدہ نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں نے انہیں معاف کردیا اور انکی غلطیوں کو درگزر کر دیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ علقمہ کا حال دیکھو ، لوگوں نے بتایا کہ انکی زبان پر کلمہ بھی جاری ہوگیا ہے اور انکی جان بھی نہایت آسانی سے نکل گئی ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے غسل اور کفن کا حکم دیا اور خود انکے جنازے میں تشریف لے گئے ، دفن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا
جس شخص نے اپنی ماں کی نافرمانی کی یا اسے تکلیف پہنچائی تو اس پر اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت
اللہ اسکا کوئی نیک عمل قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے اور اپنی ماں کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرکے اسے راضی نہ کر لے یاد رکھو کہ اللہ کی رضامندی ماں باپ کی رضامندی میں ہے اور اللہ کا غصہ ماں باپ کے غصہ میں
اب اس واقعہ کو پڑھ کر ہم سوچیں کہ ایک صحابی رسول نے ماں کی ذرا سی نافرمانی کی تو انکے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ، جبکہ وہ بہت نیک اور پرہیز گار تھے ، اور ایک طرف ہم ہیں کہ ہمارے پلے کچھ بھی نہیں ہے اور ماں باپ کا دل دکھانے سے بھی باز نہیں آتے تو ہم کس طرح اپنی بخشش کی امید لگائے بیٹھے ہیں
No comments:
Post a Comment