Saturday, December 1, 2012

IMAM SHAFEE R.A KA AIK MUKER E HADEES SAY MUNAZIRA

پروفیسر محمد ابو زہرہ کلیہ اصول الدین الازہر یونیوسٹی نے اپنی کتاب ”الحدیث والمحدثون“ میں حضرت الامام محقق اسلام حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک مناظرہ جو کہ ایک منکر حدیث سے ہوا ،نقل کیا ہے ۔ جس کا ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری مرحوم نے کیا ۔۔۔۔ اور یہ مناظرہ ماہنامہ بینات(ربیع الثانی1428ھ مئی2007ء, جلد 70, شمارہ 4)میں شایع ہوا ۔۔۔۔
*افادہٴ عام کی غرض سے قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے ۔



منکر حدیث: امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو مخاطب کرتے ہوئے 

آپ عربی ہیں اور قرآن آپ کی زبان میں اترا ہے‘ آپ جانتے ہیں کہ یہ محفوظ کتاب ہے‘ اس میں خداوندی فرائض بیان کئے گئے ہیں‘ اگر کوئی شخص اس کے کسی حرف میں بھی شک وشبہ کا اظہار کرے تو آپ اس سے توبہ کا مطالبہ کریں گے‘ اگر توبہ کرے تو فبہا‘ ورنہ (مرتد سمجھ کر) اسے قتل کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا:

”تبیاناً لکل شئ“
اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔ جب یہ بات ہے تو تمہارا یہ قول کیسے درست ہے کہ فرض عام بھی ہوتا ہے اور خاص بھی؟ نیز یہ بھی کہ امر وجوب کے لئے بھی ہوتا ہے اور اباحت کے لئے بھی؟ دوسری طرف آپ ایک شخص سے ایک یا دو تین احادیث روایت کرتے ہیں ،پھر وہ شخص دوسرے شخص سے‘ یہاں تک کہ راویوں کا سلسلہ نبی اکرم اتک پہنچ جاتاہے‘ مجھے معلوم ہے کہ آپ برملا کہا کرتے ہیں کہ: فلاں شخص سے فلاں حدیث کے نقل کرنے میں غلطی سرزد ہوئی ۔ میں جانتاہوں کہ اگر آپ ایک حدیث کی بناء پر کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرائیں اور کوئی شخص اس حدیث کے بارے میں یہ کہہ دے کہ: نبی کریم ا نے ایسا نہیں فرمایا‘ بلکہ تم سے یا اس شخص سے غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے آپ نے یہ حدیث سنی ،تو تم اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کروگے‘ تم اسے صرف یہ بات کہو گے کہ تم نے بہت بری بات کہی‘ یہ بات کیوں کر درست ہے کہ احادیث کی بناء پر قرآن کے ظاہری احکام میں تفریق کی جائے؟ جب تم حدیث کو وہی اہمیت دیتے ہو جو قرآن کو حاصل ہے تو اس حدیث کا انکار کرنے والے کے خلاف تم کونسی حجت قائم کر سکو گے؟



امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :- جو شخص اس زبان سے واقف ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا‘ وہ اس حقیقت سے باخبر ہے کہ احادیث رسول اللہ ا پر عمل کرنا ضروری ہے۔

منکر حدیث: اس کی کوئی دلیل آپ کو یاد ہو تو پیش کیجئے!

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :-

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:

”هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ الخ (الجمعہ 2)
ترجمہ:۔”وہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیات سناتا اور ان کو پاک کرتا اور کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے“۔

منکر حدیث: کتاب سے تو کتاب الٰہی مراد ہے، مگر حکمت کیا چیز ہے؟ 

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :حکمت سے حدیث رسول مراد ہے۔ 

منکر حدیث: کیا اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم ا اجمالاً بھی قرآن کی تعلیم دیتے تھے اور حکمت یعنی مذکورہ احکام بھی بیان فرماتے تھے؟

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :غالباً آپ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں جو فرائض مذکور ہیں، مثلاً: نماز‘ زکوٰة‘ حج وغیرہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ان کی کیفیت اور تفصیل بیان فرمادیا کرتے تھے۔ 

منکر حدیث:جی ہاں ! میرا یہی مطلب ہے۔

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:- تو میں بھی آپ سے یہی کہہ رہا ہوں کہ فرائض کی تفصیل حدیث رسول ا سے معلوم ہوتی ہے۔ 

منکر حدیث:اس امر کا بھی احتمال ہے کہ کتاب اور حکمت دونوں سے ایک ہی چیز مراد ہو، اور کلام کو تکرار واعادہ پر محمول کیا جائے؟

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: آپ ہی بتایئے کہ دونوں سے ایک چیز مراد لینا بہتر ہے یا دونوں؟ 

منکر حدیث: ہوسکتا ہے کہ کتاب وحکمت سے دو چیزیں یعنی کتاب وسنت مراد لی جائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی چیز یعنی قرآن مراد ہو۔

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: ہر دو احتمالات میں سے جو واضح تر ہے وہی افضل ہے اور جو بات ہم نے کہی ہے‘ قرآن کریم میں اس کی دلیل موجود ہے۔

منکر حدیث: وہ دلیل کیا اور کہاں ہے؟

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: 

اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

”وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا

الخ (الاحزاب:34)

ترجمہ:۔”اور تمہارے گھروں میں خدا کی آیات اور جس حکمت کی تلاوت کی جاتی ہے‘ اس کو یاد کرتی رہو‘ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نرمی کرنے والا اور آگاہ ہے“۔
اس آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ امہات المؤمنین کے گھروں میں دو چیزوں کی تلاوت کی جاتی تھی۔

منکر حدیث: قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے ،مگر حکمت کی تلاوت کا کیا مطلب ہے؟ 

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: تلاوت کے معنی یہ ہیں کہ: جس طرح قرآن کے ساتھ نطق کیا جاتاہے‘ اسی طرح سنت کا اظہار بھی قوت گویائی ہی کے ذریعے کیا جاتاہے۔

منکر حدیث: بے شک اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمت‘ قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز ہے۔

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ نے ہم پر رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض ٹھہرایا ہے۔ 

منکر حدیث:اس کی کیا دلیل ہے ؟

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :

اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

1- ”فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا الخ۔ (النساء:65)

ترجمہ:۔”اور تیرے رب کی قسم! لوگ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ اپنے جھگڑوں میں آپ کو فیصل نہ بنائیں اور پھر جو فیصلہ آپ صادر کردیں‘ اس کے بارے میں اپنے جی میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اپنا سرتسلیم خم کردیں“۔

2-”مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ الخ (النساء:80)

ترجمہ:۔”جس نے رسول کی اطاعت کی ،اس نے اللہ کی اطاعت کی“۔

3-”فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ الخ(النور:63)
ترجمہ:”جو لوگ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ فتنہ میں مبتلا ہوجائیں یا دردناک عذاب میں گرفتار ہوجائیں“۔



منکر حدیث: یہ درست ہے کہ حکمت سے سنت رسول مراد ہے ،اگر میرے ہم خیال لوگوں کی یہ بات صحیح ہوتی کہ ان آیات میں رسول کے احکام کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور رسول کا حکم وہی ہے جو اللہ نے قرآن کریم میں نازل کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص رسول کے احکام کی اطاعت نہیں کرتا‘ اس کو احکام خداوندی کا تسلیم نہ کرنے والا قرار دینا چاہئے‘ نہ کہ صرف احکام رسول کا باغی۔

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: 

اللہ تعالیٰ نے رسول کے احکام کا اتباع ہم پر فرض قرار دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا:

”وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا الخ۔ (الحشر:7)

ترجمہ:۔”رسول جو کچھ تم کو دے، وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو“۔
قرآن سے بوضاحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرنا اور جس بات سے منع کریں، اس سے باز رہنا ہم پر فرض ہے۔



منکر حدیث: جو بات ہم پر فرض ہے وہ ہم سے پہلوں اور پچھلوں سب پر فرض ہے؟ 

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: جی ہاں!

منکر حدیث: اگر رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے احکام کی اطاعت ہم پر فرض ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ا ہم پر کسی بات کو فرض ٹھہرا تے ہیں تو آپ ایک ایسے امر کی جانب ہماری رہنمائی کرتے ہیں جس کی اطاعت ہمارے لئے ضروری ہے؟

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: جی ہاں! 

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول کا جو حکم دیا ہے‘ کیا آپ یا آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی شخص جس نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہو‘ احادیث نبویہ کے بغیر اس کی تعمیل کرسکتا ہے؟ اور حدیث نبوی کو نظر انداز کرکے احکام رسول کی تعمیل ممکن ہے؟ علاوہ ازیں حدیث نبوی قرآن کے ناسخ ومنسوخ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ 

منکر حدیث: اس کی کوئی مثال ذکر کیجئے؟ 

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:

قرآن میں فرمایا:

”كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ“۔ (ابقرۃ :180)

ترجمہ:۔”جب تم میں سے کسی کا آخری وقت آجائے اور اس نے مال چھوڑا ہو تو تم پر والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت فرض کی گئی ہے“۔

ترکہ کی تقسیم سے متعلق قرآن میں ہے:

”وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ․․․ الخ (النساء:11)

ترجمہ:․․․”اور اگر میت کی اولاد بھی ہو تو اس کے ترکہ میں سے والدین میں سے ہرایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ پھر اگر نہ ہو اس کی اولاد اور وارث بن رہے ہوں اس کے ماں باپ ہی تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے پھر اگر ہوں میت کے بھائی بہن تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ۔۔۔۔۔۔“۔
حدیث نبوی کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا کہ ترکہ کی تقسیم سے متعلق آیت نے وصیت پر مشتمل آیت کو منسوخ کردیا‘ اگر ہم حدیث نبوی کو تسلیم نہ کرتے ہوتے اور ایک شخص ہمیں کہتا کہ وصیت پر مشتمل آیت نے تقسیم ورثہ سے متعلق آیت کو منسوخ کردیا او راس پر حجت صرف حدیث ہی کے ذریعے سے قائم کی جاسکتی ہے۔



منکر حدیث: آپ نے مجھ پر حجت تمام کردی ہے اور میں تسلیم کرتاہوں کہ حدیث نبوی کو قبول کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے‘ حق کے ظاہر ہوجانے کے بعد میں اس بات میں عار محسوس نہیں کرتا کہ حدیث نبوی کے بارے میں اپنا موقف چھوڑ کر اپنا زاویہ نگاہ اختیار کرلوں‘ بلکہ مجھے اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے کوئی چیز مانع نہیں کہ ظہور حق کے بعد اس کو تسلیم کرنا میرے لئے ضروری تھا‘ مگر بتایئے کہ: اس کا کیا مطلب کہ قرآن کے بعض عام احکام اپنے عموم پر رہتے ہیں اور بعض دفعہ ان میں تحصیص پیدا ہوجاتی ہے؟ 

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں متعدد مثالیں ذکر کیں ،پھر اپنے حریف کو مخاطب کرکے فرمایا: اب آپ پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کی اطاعت کو قرآن کریم میں فرض قرار دیا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ صلیٰ*اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے عام وخاص اور ناسخ ومنسوخ کا شارح وترجمان ٹھہرایا ہے۔

منکر حدیث: جی ہاں ! آپ کا ارشاد بجا ہے‘ مگر میں تو ہمیشہ اس کی مخالفت کرتا رہا‘ یہاں تک کہ اس نقطہٴ نظر کی غلطی مجھ پر واضح ہوگئی۔ اس ضمن میں منکر حدیث دو فرقوں میں بٹ گئے ہیں: ایک فریق کا کہنا یہ ہے کہ حدیث نبوی مطلقاً حجت نہیں ہے اور قرآن کریم میں ہر چیز کی وضاحت وصراحت موجود ہے۔

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: حدیث نبوی سے صاف انکار کا نتیجہ کیا نکلا؟ 

منکر حدیث:

بہت برا نتیجہ برآمد ہوا۔

اس لئے کہ انکار حدیث کا عقیدہ رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ :جو شخص کم از کم ایسا کام کرے جس کو صلوٰة یا زکوٰة کہہ سکتے ہیں‘ اس نے صلوٰة وزکوٰة کا حق ادا کردیا‘ اس میں وقت کی پابندی نہیں، اگر کوئی شخص ہر روز یا کئی دنوں میں دو رکعت نماز ادا کرلے تو اس نے صلوٰة کا فریضہ ادا کردیا‘ وہ کہتے ہیں کہ: جو حکم قرآن میں نہ وارد ہو‘ وہ کسی پر فرض نہیں۔ منکر حدیث کا دوسرا فرقہ کہتا ہے کہ جو حکم قرآن میں مذکور ہے، اس کے بارے میں حدیث کو قبول کیا جاسکتا ہے اور جس ضمن میں قرآن وارد نہیں ہوا‘ اس میں حدیث کو قبول نہیں کیا جاسکتا‘ نتیجہ اس کا بھی وہی ہوا جو پہلے فرقہ کا ہوا تھا۔ اس فرقہ نے پہلے حدیث کو رد کیا اور پھر اس کو قبول بھی کرنے لگے‘ یہ لوگ کسی خاص وعام یا ناسخ ومنسوخ کو تسلیم نہیں کرتے،ان دونوں کا گمراہ ہونا واضح ہے۔ اور میں ان میں سے کسی کو بھی حق نہیں سمجھتا‘ مگر میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ: آپ ایک حرام چیز کو بلاد لیل کیسے حلال سمجھنے لگے ہیں؟ کیا آپ کے پاس اس کی کوئی دلیل موجود ہے؟


امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:دلیل موجود ہے۔

منکر حدیث: کونسی دلیل؟

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: میرے پاس جو شخص بیٹھا ہے‘ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اس کا خون اور مال حرام ہے یا نہیں؟

منکر حدیث: اس کا خون اور مال حرام ہے۔ 

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اگر وہ شخص شہادت دے کہ اس فلاں شخص کو قتل کیا اور اس کا مال لے لیا اور وہ مال آپ کے پاس موجود ہے تو اس کے بارے میں آپ کا کیا رویہ ہوگا؟ (آپ کیا رویہ اختیار کریں گے؟) 

منکر حدیث: میں اس کو فوراً قتل کردوں گا اور اس سے مال لے کر وارثوں کو لوٹا دوں گا۔

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: کیا یہ ممکن نہیں کہ گواہوں نے جھوٹی اور غلط گواہی دی ہو؟ 

منکر حدیث:ایسا ہوسکتا ہے۔ 

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: پھر آپ نے جھوٹی گواہی کی بناء پر اس شخص کے مال اور خون کو کیسے مباح قرار دیا‘ حالانکہ وہ خون اور مال حرام تھا؟ 

منکر حدیث:اس لئے کہ شہادت قبول کرنا ضروری امر ہے۔ 

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:اگر تم گواہوں کی گواہی کو ظاہری صداقت کی بنا پر قبول کرنا ضروری سمجھتے ہو اور باطن کا علم تو صرف ذات خداوندی ہی کو ہے تو ہم راوی کے لئے جو شرائط عائد کرتے ہیں‘ وہ گواہ کی شرائط سے زیادہ کڑی ہیں‘ چنانچہ جن لوگوں کی شہادت کو قبول کرتے ہیں‘ ضروری نہیں کہ ان کی روایت کردہ حدیث کو بھی صحیح سمجھ لیں ۔راوی کی صداقت اور غلطی کا پتہ تو ان رواة ورجال سے بھی چل جاتاہے جو روایت حدیث میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں‘ علاوہ ازیں کتاب وسنت سے بھی راوی کی غلطی واضح ہوجاتی ہے‘ مگر شہادت میں ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی۔

منکر حدیث: میں تسلیم کرتاہوں کہ حدیث نبوی دین میں حجت ہے اور رسول کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے فرض ٹھہرایا ہے‘ جب میں نے رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کو قبول کیا تو گویا خدا کے حکم کو قبول کیا۔ حدیث ِ رسول کی حجیت پر سب مسلمانوں کا اجماع منعقد ہوچکا ہے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں‘ آپ کے بتانے سے مجھ پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ مسلمان ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment